باکمال مسلم سول انجینئرز

عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نوبخت اور فضل بن نوبخت، یہ باپ اور بیٹے اس کام کے نگران تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں انتظامی صلاحیت اور قابلیت بھی تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کا گنبد زمین سے بہت بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ نصب تھا۔ فضل بن نوبخت نے اس فن کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کیے۔ اس دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نو بخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی۔ غالباً دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومتِ وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کیے۔ 

ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا۔ نوبخت بغداد کا معمار ہے۔ اسی سمجھ دار انجینئر نے عمارتوں کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہو چکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لیے تجربہ کار اور سمجھ دار انجینئروں کی ضرورت تھی، نوبخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔ نوبخت نہایت ذہین، باصلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔وہ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے پڑھنے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے علم ہیئت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نوبخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی، اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔ 

نوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے والا (سرویئر) تھا۔ مکمل شہری آبادی کی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غوروفکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کا دائرے کی شکل میں پورا نقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمین سے کوئی 240 فٹ بلند تھی اور وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبد پر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔یہ مجسمہ دھات کا تھا اور شاہی محلات، باغات اور دیگر عمارتیں ایک گل دستے کی طرح باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔ نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھا اور یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کہانیوں کا مرکز بنا۔

فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹا تھا۔ اس نے تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ وہ جلد ہی علم ہیئت میں یکتائے روزگار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہیئت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہدۂ افلاک میں ساتھ رہتا۔ فضل نے کئی علمی اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کیے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ اس دور میں بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اور نگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب میں رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فن وار فہرست بنائی۔ یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا۔

ابراہیم عمادی

ریاضی اور ہیئت دان ابوالوفا بوزجانی

بویہ خاندان کی سرپرستی میں جن مسلم سائنس دانوں نے زندگی بسر کی، ان میں ابوالوفا بوزجانی کا نام سرفہرست ہے ۔ وہ خراسان کے ایک شہر بوزجان میں، جو ہرات اور نیشا پور کے درمیان واقع تھا، 940ء میں پیدا ہوئے۔ ریاضی اور ہیئت سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ چنانچہ ان علوم پر ابتدائی درس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے 960ء میں، جب ان کی عمر 20 سال کی تھی، وہ بغداد میں وارد ہوئے۔ ابوالوفا بوزجانی نے اپنی باقی عمر بغداد میں گزاری اور بویہ حکمران عضدالدولہ کی قدر شناسی کے باعث اس کے ایام فارغ البالی میں بسر ہوئے۔ ابو الوفا بوز جانی کا شمار اسلامی دور کے عظیم ریاضی دانوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے الجبرا جیومیٹری میں بہت سے ایسے نئے مسائل اور قاعدے نکالے جو اس سے بیشتر معلوم نہیں تھے۔

ہیئت میں انہوں نے یہ قابل قدر دریافت کی کہ زمین کے گرد چاند کی گردش میں سورج کی کشش کے اثر سے خلل پیدا ہو جاتا ہے۔ اسے Evection کہتے ہیں۔ اختلاف قمر (Variation) کے متعلق ابوالوفا نے دنیا میں پہلی بار صحیح نظریہ پیش کیا جس کی تصدیق سولہویں صدی میں مشہور ہیئت دان ٹائی کو براہی نے کی۔ اہل مغرب اس نظریے کی دریافت کا سہرا اس کے سر باندھتے ہیں حالانکہ ابوالوفا بوزجانی اسے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے تھے۔ ٹرگنو میٹری میں ابو الوفا بوزجانی نے اتنی زیادہ اور اتنے اعلیٰ درجے کی دریافتیں کی ہیں کہ انہیں ریاضی کی اس شاخ کے اولین موجدوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔  

حمید عسکری

علی بن ربن طبری جو آسمانِ علم پر ستارہ بن کر چمکا

بحیرہ کیسپین کے ساتھ جنوب میں ایران کا علاقہ طبرستان کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ یہ ایک مردم خیز خطہ اور عالم اسلام کی متعدد ایسی شخصیتوں کا مرزبوم رہا جو آسمانِ علم پر ستارہ بن کر چمکی ہیں اور جو آج بھی دنیائے علم کو اپنے نور سے منور کر رہی ہیں۔ انہی شخصیتوں میں سے ایک کا نام علی بن ربن ہے۔ وہ پہلے یہودی مذہب رکھتے تھے لیکن بعد میں اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لیے اس کا شمار مسلم دانشوروں میں ہوتا ہے۔ اس کے والد کا نام سہل اور لقب ربن تھا۔ سہل ربن کے نام ور فرزند علی بن ربن کا پورا نام ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری تھا۔ اس کی ولادت 775ء کے لگ بھگ ہوئی۔ یہ وہ عرصہ تھا جس میں خلیفہ منصور نے وفات پائی اور مہدی تخت خلافت پر بیٹھا۔

علی بن ربن کی زندگی کا ابتدائی زمانہ مرو ہی میں گزرا جہاں اس نے اپنے فاضل باپ سے طب اور فنِ کتابت کی تعلیم پائی اور ان دونوں میں یدطولیٰ حاصل کیا۔ علاوہ ازیں اس نے سریانی اور یونانی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی۔ اس کا ثبوت ہمیں اس کی تصانیف سے ملتا ہے جن میں اس نے بعض مقامات پر یونانی اور سریانی کتابوں کی اصل عبارتیں نقل کر کے ان پر بحث کی ہے۔ علی بن ربن کے زمانے میں اس کے وطن طبرستان کی حیثیت سلطنت کے اندر ایک باج گزار ریاست کی تھی جس کا والی ایک ایرانی شہزادہ مازیار بن قارن تھا۔

مازیار اگرچہ مشرف بہ اسلام ہو چکا تھا لیکن اس کے دل میں قدیم ایرانی سلطنت کے سقوط کا غم تھا اور وہ دل سے چاہتا تھا کہ طبرستان پر سلطنتِ عباسی کی بالا دستی قائم نہ رہے اور وہ ایک آزاد ایرانی ریاست بن جائے جو قدیم ساسانی سلطنت کی قائم مقام ہو۔ اس نے اس خواہش کی تکمیل کی دو مرتبہ کوشش کی۔ پہلی دفعہ اس نے مامون الرشید کے زمانے میں بغداد کی مرکزی حکومت کو خراج دینا بند کر دیا اور اپنی ریاست کی آزادی کا اعلان کر کے خلافت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ علی بن ربن نے اس موقع پر مازیار کو سمجھایا کہ اسے اس بغاوت میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ علی بن ربن کا خیال درست نکلا۔ چنانچہ اس نے علی بن ربن کو بلا کر، جس کی اصابت رائے اب مسلم ہو چکی تھی، اس بات پر مامور کیا کہ وہ مامون الرشید کے دربار میں جائے اور مازیار کی خطاؤں کو معاف کروائے۔

علی بن ربن نے اس مشکل کام کو اتنی خوش اسلوبی سے سرانجام دیا کہ مامون الرشید نے نہ صرف مازیار کے جرم کو معاف کر دیا بلکہ اسے دوبارہ طبرستان کا والی مقرر کر دیا۔ اس کامیابی پر مازیارنے علی بن ربن کو اپنا وزیر سلطنت بنا لیا۔ جب مامون الرشید کی وفات کے بعد اس کا بھائی معتصم تختِ خلافت پر بیٹھا تو مازیار نے دوبارہ علمِ بغاوت بلند کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا، مگر معتصم کی افواج سے شکست کھائی۔ اسے گرفتار کر کے معتصم کے حوالے کر دیا گیاجس نے اس کو قتل کروا دیا۔ چنانچہ علی بن ربن نے رے میں سکونت اختیار کر کے وہاں مطب شروع کر دیا۔ یہاں اس کی ملاقات زکریا رازی سے ہوئی جو رے کا رہنے والا تھا۔

زکریا رازی نے طب کی تعلیم ابتدا میں علی بن ربن سے حاصل کی، مگر بعد میں اپنے تجربے اور مشاہدے سے اس فن میں اتنا کمال پیدا کیا کہ اس کے زمانے میں اطبا میں کوئی اس کا ہم سر نہ تھا، لیکن علی بن ربن کا طرۂ امتیاز صرف یہی امر نہیں کہ وہ اسلامی دور کے طبیب اعظم زکریا رازی کا استاد تھا بلکہ اس کی حقیقی شہرت اور عظمت کا باعث یہ ہے کہ وہ عربی زبان کے پہلے طبی انسائیکلوپیڈیا کا مصنف تھا۔ اس کی یہ نادر تصنیف جس کا نام اس نے فردوس الحکمت رکھا تھا، طب کی تمام شاخوں پر حاوی تھی اور یہ کتاب اس کے عمر بھر کے تجربے اور مطالعے کا نچوڑ تھی۔ فردوس الحکمت اگرچہ اس نے عربی زبان میں لکھی تھی لیکن وہ ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ سریانی زبان میں بھی کرتا جاتا تھا جس سے اس کتاب کا ایک سریانی ایڈیشن بھی مرتب ہو گیا تھا۔

فردوس الحکمت کے علاوہ علی بن ربن کے قلم سے متعدد اور کتابیں بھی نکلیں جن میں دو کتابیں دین و دولت اور حفظ صحت دست برد زمانہ سے محفوظ رہیں۔ ان کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ علی بن ربن کو نہ صرف متداول علوم مثلاً طب، فلسفہ، ریاضی، ہیئت پر عبور تھا بلکہ تحقیق اور نقد و نظر میں بھی اس کا پایہ بلند تھا۔ علاوہ ازیں اسے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے مذہبی لٹریچر سے واقفیت حاصل تھی۔ وہ علمی اور فنی مسائل پر گہری نظر رکھتا تھا اور انہیں ایسے پیرائے میں بیان کرتا جس سے ان کی پیچیدگیاں دور ہو جاتیں اور قاری کے لیے انہیں سمجھنا آسان ہو جاتا۔ علی بن ربن کی کتاب فردوس الحکمت ایک ضخیم کتاب ہے۔

اس کا بیش تر حصہ اگرچہ طب ہی سے متعلق ہے مگر اس میں ضمناً موسمیات، حیوانات، علم تولید، نفسیات اور فلکیات پر بھی مقامات شامل ہیں۔ طب میں فاضل مصنف نے اپنے زمانے تک کے تمام یونانی اور عربی لٹریچر سے، جو اس موضوع پر اسے مل سکا، اخذ و انتخاب کا کام لیا ہے اور اس کے ساتھ اپنی ذاتی تحقیقات کو بھی شامل کیا ہے۔ فردوس الحکمت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا آخری حصہ طب ہندی یعنی آیورویدک پر مشتمل ہے جس کے اہم مقالات علی بن ربن کی بدولت پہلی بار عربی زبان میں منتقل ہوئے ہیں۔ علی بن ربن کا انتقال 870ء کے لگ بھگ ہوا۔

حمید عسکری

 

عرب مسلمانوں کا علم یورپ میں

دسویں صدی عیسوی کے خاتمہ پر عرب مسلمانوں کی سائنس جرمنی، سوئٹرزلینڈ اور وسطی یورپ کے علاقوں میں متعارف ہوئیں اور عرب ثقافت کی درس و تدریس کے کئی مراکز تشکیل پائے۔ 953ء کی ابتدا میں شہنشاہ جرمنی اوتو اعظم نے اپنے ایک راہب کو قرطبہ روانہ کیا، جہاں اس نے عربی زبان سیکھی اور جب وہ واپس آیا تو اپنے ساتھ عربی علمی مخطوطات لایا۔ تقریباً اسی زمانے میں عرب مسلمانوں سائنس کو جزائر برطانیہ میں متعارف کرایا گیا۔ برطانوی شائقینِ علم مثلاً اڈلر آف باتھ، مائیکل اسکاٹ اور دیگر طلبا و محققین عرب علم و ثقافت کو حاصل کرنے کے لیے جوق در جوق سپین کا رخ کرنے لگے۔

روجر بیکن کی معلومات کی بنیاد زیادہ تر عرب مسلمانوں کے ذرائع ہی پر تھی۔ یورپ کی یونیورسٹیوں کے ظہور میں آنے کے ساتھ ہی عرب علم و حکمت ذہنی جدوجہد کا مرکز بن گیا اور اس کی تحصیل میں دلچسپی لی جانے لگی۔ پیرس اور آکسفورڈ سمیت دیگر معروف مقامات کی یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم کا بیشتر حصہ عرب مسلمانوں کی سائنس اور لٹریچر سے تشکیل دیا گیا۔ اس لحاظ سے یونیورسٹیوں کے فروغ میں عرب سائنس ایک اہم ذریعہ اور واسطہ بنی۔ بہت سے اہم مخطوطات اور بالخصوص عرب مصنفین کی لکھی ہوئی کتابیں یورپیوں کے قبضے میں بھی آ گئیں تھیں۔

عہد وسطیٰ میں فرانسیسی شہر مونٹ پلیر کا علوم کے حوالے سے بہت شہرہ تھا۔ وہاں کا ایک درخشاں ستارہ ہیری ڈی موندی وائل تھا۔ وہ قرون وسطیٰ کا ایک مخصوص طرز کا اور نامور سرجن تھا ۔ اسے فرانسیسی سرجری کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔ عربی کے غالب ہونے کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہیری کے اقتباسات کا ایک بڑا حصہ عربی ذرائع سے ماخوذ ہے۔ یونانی علم و ثقافت کو حاصل کرنے میں عرب مسلمانوں کو جتنی جدوجہد اور مشقت اٹھانی پڑی تھی اہل مغرب کو عربوں کی سائنس اور کلچر کے حصول میں اتنی دشواری اور درد سری مول نہیں لینی پڑی بلکہ یہ سب چیزیں بآسانی ان کو دستیات ہو گئیں۔ عربوں نے اس یونانی سائنس میں نئی جان ڈال دی ۔ عربوں کے دور عروج کے آغاز میں یہ سائنس اتنی ترقی یافتہ نہ تھی۔ عرب سائنس کو اہل یورپ نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس وقت تک وہ وہ بہت جاندار اور بارآور بن چکی تھی اور اپنے بام عروج پر پہنچ چکی تھی۔

معروف آزاد

ابراھیم الفزاری : علم فلکیات پر تحقیق و تحریر

ابراھیم الفزاری کے نام سے معروف ان مسلم سائنسدان کا مکمل نام ابو اسحاق ابراھیم بن حبیب بن سلیمان بن سمورہ بن جندب الفزاری تھا۔ ان کا زمانۂ تحقیقات تاریخی اندازوں کے مطابق ماہرین نے آٹھویں صدی بتایا ہے۔ ان کا پس منظر خالص عرب اور یا پھر خالص فارسی ہونے کے بارے میں درست اور حتمی معلومات نہیں ہیں۔ خلافت عباسیہ کے دور میں حاکم وقت کے تحقیقاتی اداروں سے وابستگی رہی۔ علم فلکیات پر تحقیق و تحریر کیں جن میں اسطرلاب اور سالنامہ کی ترتیب بھی شامل ہیں۔ حاکم وقت کے کہنے پر یعقوب بن طارق کی شراکت میں ہندوستانی فلکیاتی تحریروں کا عربی میں ترجمہ کیا۔ یہ کتاب 750ء میں بیت الحکمہ بغداد میں الزیج علی سنی العرب کے نام سے تکمیل کو پہنچی۔ ان کے بیٹے کا نام بھی مماثلت کے ساتھ محمد الفزاری تھا، جو خود بھی اپنی جگہ ایک فلکیات دان تھے۔ ابراھیم الفزاری کا انتقال 777ء میں ہوا۔

محمد ایوب

احمد بن ماجد : ایک عرب جہاز راں

احمد بن ماجد پندرھویں صدی عیسوی کا ایک عرب جہاز راں تھا ۔ وہ 1421ء میں راس الخیمہ میں پیدا ہوا۔ صرف 17 برس کی عمر میں وہ بحری سفر کی مہارت حاصل کر چکا تھا۔ اس نے علم بحریات پر ایک ایسی کتاب تصنیف کی تھی جس میں بحر ہند، بحر قلزم، خلیج فارس، بحیرہ چین کے مغربی حصے اور مجمع الجزائر میں جہاز رانی کی ہدایات درج ہیں۔ اسی عرب جہاز راں کی تصنیف سے واسکو ڈے گاما کو ہندوستان کا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملی۔ اہل یورپ اس کی بحری معلومات کے معترف ہیں۔

اس کی کتاب ’’کتاب الفوائد‘‘ مشہور ہے۔ ابن ماجد کو مؤرخین نے اڑتیس کتابوں کا مصنف بتایا ہے جن میں سے اکثر فلکیات، بحریات اور جہاز رانی کے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ فرانسیسی مستشرق فیراں لکھتا ہے کہ جہاز رانی اور بحری علوم پر جدید انداز میں لکھنے والا پہلا مصنف ابن ماجد ہے۔ اگر عرض بلد کی ناگزیر غلطیوں کو نظرانداز کیا جائے تو آج بھی بادبانی و جہاز رانی کے لیے اس کی کتب بے مثال ہیں۔ اس کا یوم وفات طے نہیں ہو پایا تاہم کہا جاتا ہے کہ وہ 1500ء میں فوت ہوا۔

محمد سراج

ابو ریحان البیرونی : ڈیڑھ سو سے زائد کتابوں اور مقالہ جات کے مصنف

ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی المعروف البیرونی (وفات: 1048ء) ایک بہت بڑے محقق اور سائنس دان تھے۔ وہ خوارزم کے مضافات میں ایک قریہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے رشتہ داروں کو سائنس میں دلچسپی تھی جس کی وجہ سے انہیں علم دوست ماحول میسر آیا۔ البیرونی بو علی سینا کے ہم عصر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بچہ (البیرونی) شروع ہی سے قدرتی مناظر کا دلدادہ تھا۔ وہ دن بھر باغات میں بھرتا، خوب صورت پہاڑوں پر چڑھ جاتا، صحرا میں دوڑتا بھاگتا اور شام کے وقت گھر لوٹتا تو اس کے ہاتھ میں ریحان کی کونپلوں اور ٹہنیوں کا ایک گلدستہ ہوتا جسے وہ ایک پیالے میں سجا دیتا اور جب ہوا چلتی تو اس گلدستے کی خوشبو اس کے غریب خانے کو معطر کر دیتی۔

اس کی ماں اس کو اسی لیے ابو ریحان کہہ کر پکارتی تھی۔ البیرونی کا باپ ایک چھوٹا سا کاروبار چلاتا تھا لیکن اس کی ناگہانی موت کی وجہ سے البیرونی کی ماں اپنے لیے اور اپنے بیٹے کے لیے جنگل سے لکڑیاں جمع کر کے روزی کمانے پر مجبور ہو گئی۔ اس کام میں البیرونی اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ ایک عالم البیرونی کو باقاعدگی سے تعلیم دیتا رہا اور نباتات کا علم سکھاتا رہا۔ اس وقت البیرونی کی عمر گیارہ سال تھی۔ تین سال گزر گئے اور ابو ریحان چودہ برس کا ہو گیا، اس عرصے میں اس نے یونانی اور سریانی زبانوں میں مہارت حاصل کر لی اور پودوں کی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھ لیا۔ طبعی علوم کے بارے میں اس کا شوق اور بڑھ گیا۔

وہ عالم البیرونی کو فلکیات و ریاضی کے عالم ابو نصر منصور علی کے خدمت میں، جو خوارزمی خاندان کا شہزادہ تھا، لے گیا۔ ابو نصر نے البیرونی کے لیے الگ گھر تعمیر کرایا اور وظیفہ بھی مقرر کیا۔ ابو نصر ہر روز فلکیات اور ریاضی کے علوم سکھاتا رہا۔ ابو نصر نے البیرونی کو مشہور ریاضی دان اور ماہر عبد الصمد کی شاگردی میں دے دیا۔ البیرونی نے ریاضی، علم ہیئت، تاریخ اور جغرافیہ میں ایسی عمدہ کتابیں لکھیں جو اب تک پڑھی جاتی ہیں۔ ان میں ’’کتاب الہند‘‘ ہے جس میں البیرونی نے ہندوؤں کے مذہبی عقائد، ان کی تاریخ اور برصغیر پاک و ہند کے جغرافیائی حالات بڑی تحقیق سے لکھے ہیں۔ اس کتاب سے ہندوؤں کی تاریخ سے متعلق جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو اور کہیں سے حاصل نہیں ہوتیں۔

اس کتاب کو لکھنے میں البیرونی نے بڑی محنت کی۔ ہندو برہمن اپنا علم کسی دوسرے کو نہیں سکھاتے تھے لیکن البیرونی نے کئی سال ہندوستان میں رہ کر سنسکرت زبان سیکھی اور ہندوئوں کے علوم میں ایسی مہارت پیدا کی کہ برہمن تعجب کرنے لگے۔ البیرونی کی ایک مشہور کتاب ’’قانون مسعودی‘‘ ہے۔ یہ علم فلکیات اور ریاضی کی بڑی اہم کتاب ہے۔ اس کی وجہ سے البیرونی کو ایک عظیم سائنس دان اور ریاضی دان سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے ریاضی، علم ہیئت، طبیعیات، تاریخ، تمدن، مذاہب عالم، ارضیات، کیمیا اور جغرافیہ وغیرہ پر ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں اور مقالہ جات لکھے۔ البیرونی کے کارناموں کے پیش نظر چاند کے ایک دہانے کا نام ’’البیرونی کریٹر‘‘ رکھا گیا ہے۔ ’’الہند‘‘ ہندویات پر عربی زبان میں پہلی شہرہ آفاق کتاب ہے۔

یہ کتاب قدیم ہندوستان کی تاریخ، رسوم و رواج اور مذہبی روایات کے ذیل میں صدیوں سے مؤرخین کا ماخذ رہی ہے اور آج بھی اسے وہی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب الہند کا مواد حاصل کرنے کے لیے البیرونی نے سال ہا سال تک پنجاب میں مشہور ہندو مراکز کی سیاحت کی، سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر قدیم سنسکرت ادب کا براہ راست خود مطالعہ کیا۔ پھر ہر قسم کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی معلومات کو، جو اہل ہند کے بارے میں اسے حاصل ہوئیں اس کتاب میں قلم بند کر دیا۔ اس کتاب میں ہندو عقائد، رسم و رواج کا غیر جانبدارانہ اور تعصب سے پاک انداز میں انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس کے ذریعے عربی دان طبقہ تک ہندو مت کے عقائد و دیگر معلومات اپنے اصل مآخذ کے حوالے سے پہنچیں۔

قانون مسعودی البیرونی کی سب سے ضخیم تصنیف ہے۔ یہ 1030ء میں شائع ہوئی اور ان تمام کتابوں پر سبقت لے گئی جو ریاضی، نجوم، فلکیات اور سائنسی علوم کے موضوعات پر اس وقت میں لکھی جا چکی تھیں۔ ان کی دریافتوں کی فہرست خاصی طویل ہے، انہوں نے نوعیتی وزن متعین کرنے کا طریقہ دریافت کیا، زاویہ کو تین برابر حصوں میں تقسیم کیا، نظری اور عملی طور پر مائع پر دباؤ اور ان کے توازن پر ریسرچ کی، انہوں نے بتایا کہ فواروں کا پانی نیچے سے اوپر کس طرح جاتا ہے، انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایک دوسرے سے متصل مختلف الاشکال برتنوں میں پانی اپنی سطح کیونکر برقرار رکھتا ہے، انہوں نے محیطِ ارض نکالنے کا نظریہ وضع کیا اور متنبہ کیا کہ زمین اپنے محور کے گرد گھوم رہی ہے۔

توقیر احمد

ابن خلدون کی مشکلات

ابن خلدون فلسفہ تاریخ کے بانی اور عمرانیات کے امام اور پیشرو سمجھے جاتے ہیں۔ ابن خلدون کو ان کے ’’مقدمہ‘‘ سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے باوجود ان کی زندگی کے پورے حالات دستیاب نہیں ہوتے۔ یوں تو ابن خلدون نے بھی ایک کتاب اپنے ذاتی حالات و واقعات پر لکھی ہے لیکن اس میں بھی ان کی پوری زندگی کے بارے میں معلومات حاصل نہیں ہوتی ہیں۔ ابن خلدون کے بارے میں یہ بات اب بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی جو شہرت اور وقعت اسلامی ممالک میں ہونی چاہیے تھی وہ انہیں آج تک حاصل نہیں ہو سکی۔

مغرب کا ایک قابل تحسین کام یہ بھی ہے کہ اس کے سکالرز نے ابن خلدون کے صحیح مقام کا تعین کیا اور ابن خلدون کی عظمت و علمی برتری کو پھیلایا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خود ابن خلدون کی اپنی زندگی میں اور اس کے بعد عالم اسلام میں بعض بااثر شخصیات نے جیسے جیسے الزامات تراشے اور اس کے عظیم کام کو دفن کرنے کی کوشش کی اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو آج ابن خلدون کا کوئی نام بھی نہ جانتا۔ ابن خلدون کی تصنیف ’’مقدمہ‘‘ ایک ایسی تصنیف ہے جو دنیا کی بڑی کتابوں میں شامل کرنا لازمی ہے۔ مقدمہ نے ابن خلدون کو فلسفہ تاریخ کے بانی کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس طرح وہ عمرانیات کے امام اور پیشرو تسلیم کیے جاتے ہیں۔

ابن خلدون 732 ہجری (1332ئ) میں تیونس میں پیدا ہوئے۔ ان کے حالات زندگی کے بارے میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ ابن خلدون کی ابتدائی تعلیم قرآن پاک سے شروع ہوئی۔ انہوں نے قرآن پاک کا درس ساتوں قرأتوں کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد احادیث کا درس لیا۔ وہ سترہ برس کے تھے کہ ان کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ ابن خلدون کے مزاج کی دو خصوصیات کو سمجھنا بے حد ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ جوانی میں ہی اتنا علم حاصل کر چکے تھے کہ وہ کسی کو کم ہی خاطر میں لاتے تھے۔ ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ان کی اقتدار اور جاہ پسندی ہے۔ انہوں نے جیسی زندگی گزاری وہ بے حد حیران کن اور غیرمعمولی نوعیت کی ہے۔

اقتدار اور مرتبے کے حصول کے لیے ابن خلدون کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔تیونس کے امیر اسحاق الحصفی کے دربار تک رسائی حاصل کی۔ انہیں کاتب کا عہدہ ملا۔ جو ابن خلدون کو پسند نہ تھا۔ امیر ابو زید کے خلاف جب امیر اسحاق کا لشکر لڑائی کے لیے روانہ ہوا تو ابن خلدون بھی ہمراہ ہو گئے۔ ارادہ تھا کہ اس طرح امیر اسحاق کی ملازمت سے بھاگ نکلیں گے اور امیر ابو زید کو فتح ہوئی تو اس کا ساتھ دے کر اعلیٰ مرتبہ حاصل کریں گے۔ لیکن لشکر کو شکست ہوئی۔ ابن خلدون نے ایک گاؤں میں پناہ لی اور پھر بہت عرصے تک یوں ہی چھپے رہے۔ ابو عنان امیر مراکش کو ان کی موجودگی کی خبر ملی تو ابن خلدون کو اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔ ان کو سیکرٹری (امیر اسرار) تک عہدہ ملا۔

مگر ابن خلدون اس سے بھی مطمئن نہ تھے۔ ابن خلدون جس دور کی پیداوار ہیں اس دور میں عالم اسلام کی مرکزیت بہت حد تک ختم ہو چکی تھی۔ آپس میں اقتدار کی جنگیں ہوتی تھیں اور ایک دوسرے کے خلاف بڑی بڑی سازشیں کی جاتی تھیں۔ بجایہ کا والی ابو عبداللہ امیر مراکش ابو عنان کی قید میں تھا۔ ابن خلدون نے ایک منصوبہ تیار کرنا شروع کر دیا کہ ابو عبداللہ کو ابو عنان کی قید سے نکال کر بادشاہ بنایا جائے۔ ابن خلدون اور ابو عبداللہ کے درمیان طے پایا کہ اگر ابن خلدون کا منصوبہ کامیاب ہوا تو ابو عبداللہ ان کو اپنا وزیر بنائے گا۔ لیکن ابن خلدون کا منصوبہ فاش ہو گیا۔ اور ابن خلدون کو زندان کا منہ دیکھنا پڑا۔ انہیں اس وقت رہائی ہوئی جب ابو عنان کا انتقال ہو گیا۔

نئے حکمران الحسن بن عمر نے ابن خلدون پر خاص احسان کرتے ہوئے ان کو رہا کیا تھا۔ مگر ابن خلدون نے اس کے خلاف بھی منصوبے میں حصہ لیا۔ ابوالمنصور حکمران بنا۔ مگر اس سے بھی ابن خلدون کی زیادہ دیر نہ نبھ سکی۔ ابو سالم تخت کا دعوے دار ہوا تو ابن خلدون اس کے ساتھ ہو لیے۔ ابوسالم نے ابن خلدون کو اپنا مشیر خاص اور وزیر بنایا۔ لیکن ابن خلدون کو یہ منصب جلیلہ بھی راس نہ آیا۔ حکومت کے دوسرے لوگ خلاف ہو گئے۔ اب ابن خلدون نے اپنے ایک ساتھی سے مل کر ابو سالم کی حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ لیکن ابن خلدون اقتدار سے محروم رہے اس کا دوست تخت پر قابض ہو گیا۔ ابن خلدون تیونس سے بھاگے اور ہسپانیہ چلے آئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غرناطہ کے ابو عبداللہ خامس کو اقتدار سے الگ کیا جا چکا تھا۔ ابن خلدون نے پھر ایک نئی سازش اور ایک نیا منصوبہ تیار کیا۔

ابو عبداللہ خامس کو غرناطہ کا تخت دلانے کے لیے ابن خلدون نے اپنی سازشیں اور کوششیں شروع کر دیں۔ 1364ء میں ابو عبداللہ تخت پر براجمان ہو گیا۔ اس نے ابن خلدون کی خدمات کے عوض اپنا مقرب خاص بنا لیا اسے وزیر کا عہدہ بھی ملا۔ مگر ابن خلدون پھر اقتدار میں تبدیلی کے خواہاں تھے، جب ابو عبداللہ کے چچیرے بھائی نے حکمران کے خلاف منصوبہ بنایا تو اعانت کرنے لگے۔ ان کی ذہانت اور منصوبہ بندیوں کی وجہ سے ان کی مخالفت کا بازار گرم ہوا۔ ابن خلدون نے بھاگنا چاہا لیکن گرفتار کر لیے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔ وہ افریقہ بھاگ نکلے۔ کچھ عرصہ سلطان ابو حمود کے ساتھ بھی رفاقت کر لی لیکن ابن خلدون کی دلی آرزو کہ وہ پورا اقتدار حاصل کر سکیں کبھی پوری نہ ہوئی۔

انہوں نے سیاست ترک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ گھریلو زندگ بسر کرنے کی خواہش قوی ہوئی۔ لیکن ان کے اس فیصلے اور کنارہ کشی کے باوجود ان کی سابقہ شہرت کی وجہ سے حکام اور حکمران ان سے خائف رہے کہ وہ پھر کسی نئی سازش کا ڈول نہ ڈال دیں۔ ان کے علمی کام کی تیونس کے مفتی اعظم اور فقیہہ نے شدید مخالفت کی۔ ان کے خلاف بادشاہ کو بھڑکایا۔ ابن خلدون اب تیونس سے بھاگے تو مصر جا کر دم لیا۔ یہاں ان کی شہرت پہلے سے پہنچ چکی تھی۔ کچھ عرصہ جامعہ ازہر میں درس دیا پھر ان کو قضا کا عہد سونپ دیا گیا۔ رشوت ستانی اور بدعنوانی کے خلاف ابن خلدون نے ایسے سخت احکام اور اقدامات جاری کیے کہ عمال اور حکام ان کے مخالف ہو گئے۔ ایک بار پھر ابن خلدون نے گوشہ نشینی اختیار کی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اس کی بدبختی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ بیوی بچے تیونس سے مصر آ رہے تھے کہ جہاز راہ میں غرق ہوا اور وہ سب ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ جب ابن خلدون کو خبر ملی تو اس کی زبان سے یہ جملہ نکلا۔ “اس حادثے سے میں مالی خوش بختی اور اولاد سب سے محروم ہو گیا۔”

ستار طاہر

یورپ نے تحقیق مسلمانوں سے لی

رابرٹ بریفالٹ نے کہا ہے کہ اِس بات کا غالب اِمکان ہے کہ عرب مشاہیر سے خوشہ چینی کئے بغیر جدید یورپی تہذیب دورِ حاضر کا وہ اِرتقائی نقطۂ عروج کبھی حاصل نہیں کر سکتی تھی جس پر وہ آج فائز ہے۔ یوں تو یورپی فکری نشو و نما کے ہر شعبے میں اِسلامی ثقافت کا اثر نمایاں ہے لیکن سب سے نمایاں اثر یورپی تہذیب کے اُس مقتدِر شعبے میں ہے جسے ہم تسخیرِ فطرت اور سائنسی وجدان کا نام دیتے ہیں۔ یورپ کی سائنسی ترقی کو ہم جن عوامل کی وجہ سے پہچانتے ہیں وہ جستجو، تحقیق، تحقیقی ضابطے، تجربات، مُشاہدات، پیمائش اور حسابی مُوشگافیاں ہیں۔ یہ سب چیزیں یورپ کو معلوم تھیں اور نہ یونانیوں کو، یہ سارے تحقیقی اور فکری عوامل عربوں کے حوالے سے یورپ میں متعارف ہوئے۔

ابن سینا اور ابن خلدون کا نظریہ ریاست

جہاں تک ابن سینا کے سیاسی فلسفے کا تعلق ہے، تین عوامل اس میں مدغم ہوگئے تھے : یونانی افکار، ان پر فارابی کے اضافے اور ترامیم، اور خلافت کے بارے میں راسخ العقیدگی پر مبنی نظریات جو فقہا نے پیش کیے تھے۔ ابن سینا بھی فارابی اور یونانی مفکرین کی طرح یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ انسان کا اصلی مقصد ’’حصولِ مسرّت‘‘ ہے۔ اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو ریاست پیغمبرِ قانون ساز پر نازل شدہ وحی پر مبنی شریعت کے مطابق قائم ہوئی تھی، وہ طاقت (ملک) کے بل پر قائم کردہ ریاست سے کہیں زیادہ اعلیٰ اور بلند تھی۔

جہاں تک خلافت کا تعلق ہے، ابن سینا کا خیال تھا کہ خلیفہ جسے شریعت کا مکمل علم حاصل ہونا چاہیے، اس کی اطاعت اس لیے کرنی چاہیے کہ وہ پیغمبر ِقانون ساز کا وارث ہے۔ اس نے بھی خلیفہ کے وہی فرائض، ذمہ داریاں اور اوصاف بتائے ہیں جو فقہا نے گنوائے ہیں۔ البتہ یہ اضافہ کیا کہ خلیفہ کا انتخاب پوری امتِ مسلمہ کو کرنا چاہیے۔ ابن سینا نے فقہا سے معنوی لحاظ سے اختلاف کیا، جب اس نے کہا کہ غاصب (متغلّب) حکمران کے خلاف جنگ کرنی چاہیے اور ممکن ہو تو اسے قتل کر دینا چاہیے۔ اس نے تو یہاں تک کہا کہ جو شہری غاصب کے خلاف جنگ کے وسائل رکھنے کے باوجود جنگ نہیں کرتے، وہ مستوجب سزا ہیں۔

بے شک ابن سینا کا مرتبہ عالی اور بلند ہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے نظریات میں بھی تضاد پایا جاتا ہے۔ اس نے دلیل کے ساتھ کہا تھا کہ اگر ایک کمزور اور نااہل خلیفہ کو ہٹا کر اس کی جگہ ایک طاقتور اور عقل مند باغی کو تخت پر بٹھا دیا جائے تو شہریوں کو چاہیے کہ وہ باغی کا دعویٰ تسلیم کریں، بشرطیکہ دوسرے اعتبارات سے بھی وہ اِس منصب کے اہل ہو۔ گویا ابن سینا نے اپنا سابقہ سخت اور بے لچک موقف ایک ایسے حکمران کے حق میں بدل لیا جس کی حکمرانی طاقت اور ذہانت پر مبنی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس نے اس نکتے پر زور دیا کہ ایک طاقتور اور ذہین، مگر کم پارسا، غاصب حکمران ایک کمزور اور نااہل، مگر متقی خلیفہ کے مقابلے میں بہتر اور قابلِ ترجیح ہے۔ 

ابن سینا نے عبادات اور معاملات میں بھی امتیاز روا رکھا۔ اس نے کہا کہ عبادات کی انجام دہی ضروری ہے، اس لیے کہ یہ ملتِ اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن امام کو بنیادی طور پر شہریوں کے معاملات سے تعلق رکھنا چاہیے۔ معاشرتی تعلقات کی تنظیم ایسی قانون سازی سے کرنی چاہیے جو شہریوں کی جان و مال اور لین دین کے معاملات کا تحفظ کر سکے۔ اس نے سفارش کی کہ شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے اور جو لوگ شریعت کے مخالف ہوں، انھیں ریاست سے نکال باہر کرنا چاہیے۔ اس کا حصولِ مسرت کا دوگونہ تصور بھی یعنی موجودہ دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آخرت میں نعمتوں کے حصول کی تیاری، شریعت پر پوری پابندی کے ساتھ عمل کرنے سے وابستہ ہے۔

دوسرے مسلمان مفکرین کی طرح ابن رشد کا بھی یہی خیال تھا کہ انسان مسرت یا کاملیت عالم تنہائی میں حاصل نہیں کر سکتا۔ اسے دوسرے انسانوں سے سیاسی تعلقات ضرور استوار کرنے چاہئیں۔ وہ ریاست کے بغیر زندہ بھی نہیں رہ سکتا۔ اس کا یہ اصرار عین منطقی ہے، کیونکہ ایک اچھی ریاست یقینا قانون پر مبنی ہوتی ہے۔ مثالی ریاست وہ ہوتی ہے جس کی بنیاد وحی پر رکھی گئی ہو اور سچی خوشی یا اعلیٰ ترین کاملیت ایسی ہی ریاست میں حاصل ہو سکتی ہے۔ مثالی ریاست کا آئین شریعت ہے۔ چونکہ صرف فلسفی ہی شریعت کے گہرے اسرار و معانی سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے، اور وہی ان کی صحیح تشریح کر سکتا ہے، لہٰذا اسے مثالی ریاست کی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ 

ابن رشد اگرچہ خود بھی عالمِ دین تھا، مالکی مکتب کا فقیہہ تھا، قرطبہ کا قاضی تھا، تاہم وہ شریعت کی تفہیم و تشریح کے معاملے میں فلاسفہ کو علمائے دین اور فقہا کے مقابلے میں بہتر اور قابل ترجیح سمجھتا تھا۔ ابن خلدون نے شریعت کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاستِ دینیہ) اور عقل کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست (سیاست عقلیہ) کے درمیان خطِ امتیاز کھینچا ہے اس کا نظریہ تاریخ زیادہ تر ’’عصبیت‘‘ کے تصور پر استوار ہے۔ عصبیت کا مطلب ہے، ایک گروہ یا خاندان کا دعویٰ حکمرانی، اجتماعی کارناموں اور فتوحات کی وجہ سے حاصل شدہ شہرت ، عزمِ صمیم اور زبردست طاقت کی اساس پر۔ 

ابن خلدون کے نظریے کے مطابق جب تک ایک گروپ (مثلاً قبیلہ قریش) یا خاندان (مثلاً سلجوق) اپنی کمزوری اور زوال کے آثار ظاہر نہیں کرتا، اس وقت تک وہ ریاست کے اوپر اپنا اقتدار برقرار رکھتا ہے۔ اور جب ایک گروپ یا خاندان اقتدار کھودیتا ہے تو دوسرا گروپ یا خاندان تازہ ’’عصبیت‘‘ کے ساتھ اقتدار سنبھال لیتا ہے۔ ابن خلدون کے وقتوں میں بیشتر موجود مسلم ریاستیں مقتدر ریاستیں تھیں یعنی وہ طاقت کے بل پر اقتدار میں آئی تھیں۔ اس کی اپنی اصطلاح میں یہ ریاستیں ’’انسان کے خود ساختہ قوانین پر‘‘ قائم ہوئی تھیں۔ اس کا طرز استدلال یہ تھا کہ رسول کریمؐ قانون ساز امام تھے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو شریعت کے تحت متحد و منظم کر دیا تھا، جس کی بالادستی کو خلفائے راشدینؓ کے پوری عہدِ خلافت میں تسلیم کیا جاتا رہا تھا۔ بعدازاں مذہبی جوش و تحریک میں کمی آنے کی وجہ سے خلافت ملوکیت میں بدل گئی، جس میں حکمرانی انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت کی جاتی تھی، حالانکہ دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ ان کا اصل سرچشمہ شریعت ہے۔ 

ابن خلدون نے مذہبی و سیاسی ادارے کی حیثیت سے خلافت کی اہمیت پر بھی بحث کی ہے اور ماوردی کی اِس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ خلیفہ کا کام دینِ اسلام کا تحفظ اور کاروبارِ ریاست کا انصرام ہے۔ لیکن ابن خلدون کے زمانے میں خلافت خالص مذہبی ادارے کی حیثیت سے صرف قاہرہ میں باقی بچ گئی تھی، جبکہ مدت ہوئی، خلیفہ کا انتظامی یا سرکاری معاملات سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ ابن خلدون کو ایک عمل پسند مفکر کی حیثیت سے یقین تھا کہ ایک مقتدر ریاست (ملوکیت) بھی انسان کے بنائے ہوئے خود ساختہ قوانین کے ذریعے اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکتی ہے۔

اس نے سفارش کی تھی کہ ملوکیت کو اپنا رشتہ شریعت سے منقطع نہیں کر لینا چاہیے، کیونکہ ملوکیت اصل میں خلافت ہی سے نکلی ہے۔ ابن خلدون نے شریعت کی نظری و اصولی اہمیت کو تسلیم کرنے کے باوجود، ریاست کو بھی اس کی اصلیت و حقیقت کے ساتھ قبول کیا اور کہا کہ ایک ’’مخلوط‘‘ ریاست بھی جس کا نظمِ حکومت جزواً شریعت کے مطابق اور جزواً انسان کے خود ساختہ قوانین کے تحت چلایا جاتا ہو، اپنے شہریوں کی خدمت بجا لا سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک ایسی مسلم ریاست جس کا نظمِ حکومت انسانی عقل کے وضع کردہ قوانین کے تحت چلتا ہو، وہ بھی اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکتی ہے۔

ڈاکٹر جاوید اقبال