انٹرنیٹ کا آغاز کیسے ہوا ؟، موجد کون تھا ؟

انٹرنیٹ ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اگر یوں کہا جائے کہ دنیا کی تمام ٹیکنالوجی اور ارتقاء انٹرنیٹ کی مرہون منت ہے تو غلط نہیں ہو گا۔ اربوں ڈالر کی موبائل فون انڈسٹری ہو یا ورچوئل ورلڈسب انٹر نیٹ کے شاہکار ہیں۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کو 50 سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا ہے۔ 1969ء کے اختتام میں، چاند پر انسانی قدم پڑنے کے کچھ ہفتوں بعد یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر لیونارڈ کلائن روک کے دفتر میں ایک سرمئی رنگ کا دھاتی باکس موصول ہوا۔ اس باکس کا سائز ایک ریفریجریٹر جتنا تھا۔ یہ بات عام لوگوں کے لئے حیران کن تھی لیکن کلائن روک اس سے بہت خوش تھا اور پرجوش نظر آرہا تھا۔ 60 کی دہائی میں گہرے خاکی رنگ میں لی گئی اس کی تصویر اس کی خوشی کی بخوبی ترجمانی کر رہی ہے۔ وہ تصویر میں کھڑا ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی باپ اپنی باصلاحیت اور قابل فخر اولاد کے ساتھ کھڑا ہو۔

کلائن روک نے اپنی خوشی کی وجہ اپنے قریبی احباب کے علاوہ کسی کو سمجھانے کی کوشش کی ہوتی تو شائد وہ سمجھ نہ پاتے۔ کچھ لوگ جنہیں اس باکس کی موجودگی کا علم تھا وہ بھی یہ نہیں جانتے تھے کہ آخر یہ ہے کیا اور اس کا نام کیا ہے۔ یہ” آئی ایم پی‘‘ تھا جسے انٹرفیس میسج پروسیسر بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ دیر قبل بوسٹن کی ایک کمپنی نے اسے بنانے کا ٹھیکہ حاصل کیا تھا۔ بوسٹن کے سنیٹر ٹیڈ کینیڈی نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس کی افادیت اور ماحول دوست ہونے کا اظہار کیا تھا۔ کلائن کے دفتر کے باہر موجود مشین صرف دنیا میں رہنے والے مختلف لوگوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم کام کر سکتی تھی۔ دنیا میں انٹرنیٹ پہلی مرتبہ کب استعمال ہوا اور اس کا باقاعدہ آغاز کس وقت ہوا اس کے متعلق یقینی طورپر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیوں کہ بہت سے لوگ اس کی تخلیق میں شامل تھے اور کئی لوگوں نے اس کی تخلیق میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

اس لئے بہت سے لوگ اس کا اعزاز اپنے نام کرنا چاہتے تھے۔ 29 اکتوبر 1969ء میں انٹرنیٹ کا آغاز ہوا، یہ کلائن روک کا مضبوط دعویٰ ہے کیونکہ اسی تاریخ کو پہلی مرتبہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے پیغام ایک سے دوسرے سرے پر بھیجا گیا تھا۔ 29 اکتوبر 1969ء رات 10 بجے جب کلائن، اس کے ساتھی پروفیسر اور طلباء ہجوم کی صورت میں اس کے گرد جمع تھے تو کلائن روک نے کمپیوٹر کو آئی ایم پی کے ساتھ منسلک کیا جس نے دوسرے آئی ایم پی سے رابطہ کیا جو سیکڑوں میل دور ایک کمپیوٹر کے ساتھ منسلک تھا۔ چارلی کلین نامی ایک طالب علم نے اس پر پہلا میسج ٹائپ کیا اور اس کے الفاظ وہی تھے جو تقریباً 135 برس قبل سیموئیل مورس نے پہلا ٹیلی گراف پیغام بھیجتے ہوئے استعمال کئے تھے۔ کلائن روک کو جو ذمہ داری دی گئی تھی وہ یہ تھی کہ اسے لاس اینجلس میں بیٹھ کر سٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں موجود مشین میں لاگ ان کرنا ہے لیکن ظاہر طور پر اس کے کوئی امکانات نظر نہیں آرہے تھے۔

کلائن نے جو بھی کیا وہ ایک تاریخ ہے اور اب اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کہنا حماقت ہو گی کیونکہ کلائن روک کے پہلا پیغام بھیجنے کے 12 سال بعد اس سسٹم پر صرف 213 کمپیوٹر موجود تھے۔ 14 سال بعد اسی سسٹم پر ایک کروڑ 60 لاکھ لوگ آن لائن تھے اور ای میل دنیا کے لئے نئے دروازے کھول رہی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 1993ء تک صارفین کے پاس کوئی قابل استعمال ویب براؤزر موجود نہیں تھا۔ 1995ء میں ہمارے پاس ایمزون تھا، 1998ء میں گوگل اور 2001ء میں وکی پیڈیا موجود تھا اور ُاس وقت تک 513 ملین لوگ آن لائن ہو چکے تھے۔ اس رفتار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انٹر نیٹ نے کتنی تیزی سے کامیابی کی منازل طے کیں اور اب انٹرنیٹ اپنی اگلی جنریشن میں داخل ہونے کو تیار ہے، جسے میٹاورس کہا جاتا ہے۔ تاحال میٹا ورس ابھی ایک تصور سے زیادہ کچھ نہیں لیکن اس میٹا ورس کی ورچوئل ورلڈ میں آپ ہیڈ سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ڈیجیٹل دنیا میں قدم رکھ پائیں گے اور اپنے روز مرہ کے کام سر انجام دے سکیں گے۔

انٹرنیٹ کے ارتقاء کا عمل اتنا برق رفتار تھا کہ یہ بہت سے نشیب و فراز جو اس دنیا نے دیکھے ان کا ”گواہ‘‘ بن گیا۔ آج انٹرنیت اپنی ایک الگ دنیا رکھتا ہے۔ کلائن نے پہلا پیغام بھیجتے وقت یہ سوچا بھی نہیں ہو گا کہ 50 برس بعد یہ دنیا انٹرنیٹ کے ذریعے، فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ اور انسٹا گرام جیسی ورچوئل ورلڈ سے متعارف ہو گی، جس کا استعمال دنیا کی سپر پاورز کے وزرائے اعلیٰ اور صدور بھی کیا کریں گے۔ انٹرنیٹ نے دنیا کی سیاست کو بھی یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے یہی انٹرنیٹ کئی انقلاب اور بغاوتوں کا بھی گواہ ہے اور کسی حد تک وجہ بھی۔ جس انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے کلائن روک سٹینفرڈ انسٹیٹیوٹ میں موجود کمپیوٹر پر لاگ ان کرنے کے لئے پریشان تھا وہی انٹرنیٹ ترقی کی منازل طے کرتا ہوا آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ پوری دنیا صرف 135 سے 150 گرام کے موبائل میں قید کر کے آپ کے ہاتھ میں پکڑا دی گئی ہے۔ آج دنیا کے 4 ارب 66 کروڑ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔

(تنزیل الرحمن ایک نوجوان لکھاری ہیں اور تحقیق کے شعبہ سے وابستہ ہیں)

بشکریہ دنیا نیوز

کیا ایمازون کے روبوٹ انسانوں کی جگہ لے سکتے ہیں ؟

آن لائن بزنس کی دیوقامت کمپنی ایمازون نے امریکی ریاست میساچوسیٹس کے شہر بوسٹن کے مضافات میں قائم اپنی روبوٹکس لیبارٹری میں ’سپیرو‘ نامی روبوٹ تیار کیا ہے جو انسانی ہاتھ جیسی مہارت کے ساتھ صارفین کو بھیجنے کے لیے اشیا کا انتخاب کرتا ہے۔ یہ اب تک کا ایمازون کا جدید ترین روبوٹ ہے اور جلد ہی کمپنی کے ان لاکھوں ملازمین کا کام کر سکے گا جو سامان کو الگ الگ کر کے اسے سالانہ پانچ ارب خاندانوں کو ارسال کرتے ہیں۔ ’سپیرو‘ اور ’روبن‘ اور ’کارڈینل‘ نامی روبوٹس کی تیاری سے ایمازون کے گوداموں میں کام کرنے والے ملازمین میں تشویش پیدا ہو گئی ہے کہ ایک دن آئے گا جب گودام مشینیں چلائیں گی اور بڑے پیمانے پر لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ تاہم ایمازون کے شعبہ روبوٹکس کے سربراہ ٹائی بریڈی نے اس تشویش کا مسترد کر دیا جس کا اظہار لیبر یونینوں نے کیا۔

گذشتہ سال اکتوبر میں ویسٹ بورو میں کھلنے والی لیبارٹی کے دورے کے موقعے پر صحافیوں سے بات چیت میں ان کا کہنا تھا کہ ’مشینیں لوگوں کی جگہ نہیں لے رہیں۔ دراصل مشینیں اور لوگ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ کام کو مربوط بنایا جا سکے۔ سپیرو کیمروں اور سلینڈر کی شکل کی ٹیوبوں سے آراستہ ہے۔ روبوٹ میں مختلف شکل اور سائز کی لاکھوں مصنوعات میں مخصوص شے کا انتخاب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ کنویئر بیلٹ پر آنے والے سامان کو اپنے روبوٹک بازو کی مدد سے آہستہ سے اٹھا کر اپنے سامنے موجود متعلقہ ٹوکری میں ڈال دیتا ہے۔ روبن اور کارڈینل بھی سامان کو مخصوص جگہ پر پہنچا سکتے ہیں تاہم سپیرو ایمازون کا پہلا روبوٹ ہے جو الگ الگ اشیا کو سنبھال سکتا ہے۔ بریڈی کہتے ہیں کہ ’ہمارے گوداموں میں موجود مختلف قسم کے سامان سامنے رکھتے ہوئے، سپیرو ایک اہم کامیابی ہے۔‘

تین روبوٹوں کے ساتھ کام کرنا مشینوں کی ایک چھوٹی فوج کے ساتھ کام کرنے جیسا ہے۔ اس فوج میں پروٹیئس نام کا روبوٹ بھی شامل ہے جو گوداموں سے سینکڑوں کلوگرام اشیا لے جا سکتا ہے۔ بریڈی کا کہنا تھا کہ روبوٹس کی بدولت ملازمین ایک ہی کام بار بار کرنے سے آزاد ہو کر اپنی حفاظت کو بہتر بناتے ہوئے توجہ زیادہ فائدہ مند اور دلچسپ کاموں پر مرکوز کر سکیں گے۔ ایمازون کی توجہ اس بات کو یقینی بنا رہی ہے کہ صارف کے کسی چیز کا آرڈر دینے اور اس چیز کے اس کے دروازے پر پہنچنے کے درمیان جتنا ممکن ہو کم وقت لگے۔ اس مقصد کی وجہ سے کچھ کارکنوں نے کمپنی پر ان کے ساتھ ’غلاموں‘ جیسا سلوک کرنے اور انہیں کھانے اور بیت الخلا جانے کے وقفوں سے محروم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ ایمازون کی سامان کی تیز ترسیل کی خواہش آٹومیشن میں اس کی سرمایہ کاری کو آگے بڑھا رہی ہے۔ اس سال کے آخر تک یہ لاک فورڈ، کیلی فورنیا اور کالج سٹیشن، ٹیکسس کے گوداموں سے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں دو کلوگرام تک کے پیکیجوں کی فراہمی شروع کر دے گی۔

کمپنی کا ہدف بوسٹن، اٹلانٹا اور سیاٹل جیسے بڑے امریکی شہروں سمیت دہائی کے آخر تک ڈرون کے ذریعے 50 کروڑ پیکج فراہم کرنا ہے۔ ایمازون روبوٹکس کے نائب صدر جو کوئن لیون کے مطابق کمپنی کے سالانہ پانچ ارب آرڈرز کا تقریباً 75 فیصد کسی نہ کسی مرحلے پر روبوٹ کے ذریعے ہینڈل کیا جاتا ہے۔ کئی دہائیوں سے روایتی سوچ یہ تھی کہ بڑھتی ہوئی آٹومیشن افرادی قوت کو تباہ کر دیتی ہے۔ اب مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ای کامرس میں روبوٹس کی طرف جانے سے طلب میں زبردست اضافے کی بدولت مختصر سے درمیانی مدت میں ملازمتیں بڑے پیمانے پر ختم نہیں ہوں گی۔ تاہم برکلے میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے لیبر سینٹر کے 2019 کے مطالعے میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگرچہ کچھ ٹیکنالوجیز گودام کے مشکل کاموں کو آسان بنا سکتی ہیں لیکن وہ ’کام کے بوجھ اور کام کی رفتار‘ کو بڑھانے میں بھی کردار ادا سکتی ہیں۔ محققین نے مزید کہا کہ تکنیکی ترقی ’کارکنوں کی نگرانی کے نئے طریقوں‘ میں بھی حصہ ڈال سکتی ہے۔

انہوں نے ایمازون کی مشن ریسر نامی ویڈیو گیم کا حوالہ دیا ’جو صارفین کے آرڈرز کو تیزی سے جمع کرنے کے لیے کارکنوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرتی ہے۔‘ ایمازون کا کہنا ہے کہ اس کی اختراع نے 10 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں اور ملازمت کی سات سو نئی کیٹگریاں پیدا کیں، نہ صرف خاص طور پر انتہائی مہارت والے انجینیئرنگ کے شعبےمیں بلکہ تکنیکی ماہرین اور آپریٹرزکے لیے روزگار کے مواقعے پیدا کیے۔ کوئن لیون کے مطابق: ’میں واقعی سوچتا ہوں کہ ہم اگلے پانچ سالوں میں جو کچھ کرنے جا رہے ہیں وہ گذشتہ 10 سالوں میں ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے اسے گھٹا دے گا۔‘

بشکریہ انڈپینڈنٹ اردو

کیا زمین کی ایک سے دوسرے سرے تک کھدائی ممکن ہے؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کھدائی کر کے پہنچنا ممکن ہے یا نہیں ؟ اگر ایسا کیا جائے تو اس کے کیا نتائج حاصل ہوں گے ؟ جانئے اس خصوصی رپورٹ میں۔ فرض کریں کہ اگر سائنس ایسی کوئی تیکنیک ایجاد کر لے کہ پاکستان سے سوراخ کر کے زمین کے دوسرے سرے تک پہنچا جائے تو زمین کا یہ دوسرا سِرا میکسکو اور ارجنٹینا کے درمیان سمندر میں نکلے گا جس کی پیمائش 12740 کلو میٹر ہو گی۔ یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر انسان ساڑھے 5 کروڑ کلو میٹر (55,000,000KM ) فاصلہ طے کر کے مارس تک پہنچ سکتا ہے تو صرف 12740 کلو میٹر زمین میں سوراخ کر کے دوسرے سرے تک کیوں نہیں جا سکتا۔ رپورٹس کے مطابق سائنس کی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تا حال انسان زمین کی صرف 12 کلو میٹر تک کی ہی کھدائی کر سکا ہے۔ ایک محتاط تحقیق کے مطابق زمین میں سب سے کم کھدائی قبر کی ہے جس کی گہرائی 6 فُٹ ہے۔

دوسری جانب جانوروں کی بات کی جائے تو نائل مگر مچھ 40 فُٹ کی گہرائی تک اپنی بِل کھود سکتا ہے جو کہ اب تک کی جانوروں کی جانب سے کھودی گئی سب سے گہرا بل ہے۔ دبئی میں تاریخ کا سب سے گہرا سوئمنگ پول ’ڈیپ ڈائیو‘ بنایا گیا تھا جس کی گہرائی 170 فٹ تھی اور اس میں ٹوٹل ڈیڑھ کروڑ لیٹر پانی موجود ہے۔ 346 فُٹ کی گہرائی تک دنیا کا سب سے گہرا میٹرو اسٹیشن بنا ہوا ہے جو کہ یوکرین کے شہر کیف میں واقع ہے۔ 720 فُٹ کی گہرائی تک دنیا کے سب سے گہرے دریا ’کونگو رِیور‘ کی گہرائی ناپی جا چکی ہے، یہ دریا افریقا میں واقع ہے۔ دنیا کی سب سے گہر ی ریل سرنگ ’سائکن ٹنل‘ کی گہرائی 790 فُٹ ہے ، یہ سرنگ نما ٹرین کا راستہ زیر زمین جاپان کے دو شہروں کو آپس میں ملاتا ہے۔ دنیا کی سب سے گہری سرنگ کی پیمائش 958 فُٹ ہے جو کہ روگا لینڈ میں موجود ہے۔ زمین کی 1000 فُٹ گہرائی تک نیوکلیئر ہتھیار وار کر سکتا ہے۔

دنیا کے سب سے گہرے غار کی گہرائی 7200 فُٹ ہے جو کہ جارجیا میں موجود ہے۔ افریقا میں موجود دنیا کی سب سے گہری سونے کی کان کی گہرائی 13120 فُٹ ہے جس میں جانے کے لیے کان کُنوں کو پورا ایک گھنٹہ سفر کرنا پڑتا ہے، اس گہرائی تک پہچنے تک زمین کا درجہ حرارت 66 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جبکہ انسان اس سے زیادہ گہرائی تک زمین میں سوراخ کر چکا ہے۔ جی ہاں ! انسان 23 سینٹی میٹر چوڑا، 40230 فُٹ گہرائی تک ایک سوراخ کر چکا ہے جسے ’کولا سُپر ڈیپ بُور ہول ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ روس کی جانب سے کیے جانے والے اس سوراخ کا مقصد زمین کے درمیان (زمینی مرکز) تک پہنچنا تھا مگر ڈِرِلنگ مشین اس مشن کو پورا نہ کر سکی جس کی وجہ زمین کا دجہ حرارت تھا۔ 9 سالوں کی مسلسل کوشش کے بعد ڈرلنگ مشین نے زمین کے دجہ حرارت کے آگے ہار مان لی تھی، 180 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ کر ڈرلنگ مشین آگے سوراخ کرنے سے قاصر رہی۔

حیرت انگیز طور پر انسان اپنے اس ریکارڈ کو خود ہی توڑنے میں کامیاب رہا ہے۔ قطر کی ایک آئل کمپنی ’الشاہین‘ کی جانب سے 40,318 فُٹ گہرا سوراخ کر کے دنیا کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا مرکز 6371 کلو میٹر ہے جبکہ تا حال انسان صرف 12 کلو میٹر تک ہی زمین میں سوراخ کر چکا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

بابائے کیمیا : جابر بن حیان کی اہم ایجادات

جابر ابن حیان ایسا مسلمان کیمیا دان رہا ہے جس کی محنت اور کوشش سے علم کیمیا کو بڑی ترقی ملی اور یہ علم موجودہ حالت پر آیا۔ سچ تو یہ ہے کہ جابر ابن حیان سب سے پہلا کیمیا دان تھا۔ جنھیں دنیا ”بابائے کیمیا‘‘ کے نام سے بھی جانتی ہے۔ وہ ایک عظیم مسلمان کیمیا دان ہونے کے ساتھ ساتھ ریاضی دان، حکیم، فلسفی ، ماہر نفسیات اور ماہر فلکیات بھی تھے۔ اہل مغرب میں جابر بن حیان ”جیبر‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق عرب کے ایک قبیلے ”بنو ازد‘‘ سے تھا لیکن ان کا خاندان کوفے آ کر آباد ہو گیا تھا۔ جابر 722ء میں خراسان میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والدہ انہیں لے کر واپس عرب چلی گئیں اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں رہنے لگیں۔ انھوں نے کوفہ میں امام جعفر صادقؓ کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی جہاں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ فلسفہ حکمت، منطق اور کیمیا جیسے مضامین کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ یہ ان ہی کی صحبت کا اثر تھا کہ جابر اگرچہ بعد میں سائنسدان بنے لیکن ان پر مذہب کا رنگ ہمیشہ غالب رہا۔

اب تو علم کیمیا بہت ترقی کر چکا ہے اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں لیکن جابر کے زمانے میں اس علم کا مطلب یہ تھا کہ معمولی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے۔ کسی کو اس میں کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن کوشش سب کرتے تھے۔ جابر نے اپنا وقت صرف اس خیال پر ضائع نہیں کیا، انہوں نے تجرباتی کیمیا پر زور دیا۔ وہ بہت سے تجربات سے واقف تھے جو آج کے طالب علم بھی اپنی تعلیم گاہوں کی تجربہ گاہ میں کرتے ہیں۔ مثلاً حل کرنا، کشید کرنا، فلٹر کرنا، اشیا کا جوہر اڑانا اور مختلف چیزوں کی قلمیں بنانا۔ اپنی ایک کتاب میں وہ لکھتے ہیں ”کیمیا میں سب سے ضروری چیز تجربہ ہے، جو شخص اپنے علم کی بنیاد تجربے پر نہیں رکھتا، وہ ہمیشہ غلطی کھاتا ہے۔ پس اگر تم کیمیا کا صحیح علم حاصل کرنا چاہتے ہو تو تجربے پر انحصار کرو اور صرف اسی علم کو صحیح جانو جو تجربے سے ثابت ہو جائے۔

کسی کیمیا دان کی قابلیت کا اندازہ اس سے نہیں لگایا جاتا کہ اس نے کیا کیا پڑھا ہے، بلکہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس نے تجربے کے ذریعے کیا کچھ ثابت کیا ہے‘‘۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے موم جامہ بنانے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے اس پر وارنش کرنے، بالوں کا خضاب تیار کرنے اور اسی قسم کی درجنوں مفید چیزیں بنانے کے طریقے ایجاد کئے۔ کیمیائی آلات میں جابر کی سب سے اچھی ایجاد ”قرع انبیق‘‘ (کشید کرنے والا آلہ) ہے جس سے کشید کرنے، عرق کھینچنے اور ست یا جوہر تیار کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اس آلے میں جو برتن استعمال ہوتے تھے ان میں سے ایک ”قرع‘‘ اور دوسرے کو ”انبیق‘‘ کہتے تھے۔ قرع عموماً صراحی کی شکل کا ہوتا تھا، جس کے ساتھ ایک لمبی نالی لگی ہوتی تھی۔ دوسرا حصہ پہلے پر اچھی طرح آ جاتا تھا اور اس میں پھنس جاتا تھا۔

عطار عرق کھینچنے کے لئے اب بھی یہ آلہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ مٹی کے بجائے لوہے یا ٹین سے بنایا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام” ریٹارٹ‘‘ ہے۔ جابر کی ایک اہم دریافت گندھک کا تیزاب ہے۔ انہوں نے اس قرع انبیق سے ہی تیزاب بنایا۔ آج بھی اس کی تیاری کا طریقہ کافی حد تک وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب ذرا بہتر قسم کے آلات استعمال کئے جاتے ہیں۔ الغرض جابر نے اپنی تحقیقات سے علم کیمیا کو نیا روپ دیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ انھوں نے کیمیا پر تصانیف بھی لکھیں جن کی زبان عربی ہے۔ ان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ ان کی علمی تحریروں میں 200 سے زیادہ تصانیف شامل ہیں۔ اسلامی عہد میں سنہری کارنامے انجام دینے والا یہ عظیم سائنس دان 95 برس کی عمر میں فوت ہوا۔

بشکریہ دنیا نیوز

ہبل خلائی دور بین کائنات کے بہت سے راز فاش کر رہی ہے

چار دہائیوں کی منصوبہ بندی کے بعد 24 اپریل 1990 کو شٹل ڈسکوری کے ذریعے ہیلی سپیس ٹیلی سکوپ (ہبل خلائی دوربین) زمین کے گرد 381 میل بلند مدار میں پہنچائی گئی۔ زمین سے کنٹرول کیا جانے والا بارہ ٹن وزنی اور ایک کار کی جسامت کا یہ خلا میں چھوڑا جانے والا سب سے بڑا جسم تھا۔ اس کا نام ایڈون پاول ہبل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ایڈون پاول ہبل امریکی ماہر فلکیات تھے۔ انہوں نے 1923ء میں نو تعمیر شدہ سوانچی انعکاسی دوربین سے اینڈرومیڈا میں کچھ عام ستارے (یعنی نووا کے علاوہ) دریافت کیے تھے جن میں سیفیڈ بھی شامل تھے۔ کرۂ ہوائی فلکی اجسام سے خارج ہونے والی مرئی، بالائے بنفشی اور انفراریڈ شعاعوں کا ایک خاصا بڑا حصہ روک لیتا ہے اور وہ جسم دھندلا جاتے ہیں۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہ دور بین فلکی اجسام کی طیف کے وہ حصے بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جو زمین پر ممکن نہیں تھا۔

ہبل دوربین کی مدد سے زمین پر موجود آلات سے 10 گنا زیادہ صاف طیف بنانا ممکن ہو جاتا ہے۔ ہبل کے عد سے میں کردی کجی نامی ایک فنی خامی کے باعث یہ مرئی روشنی کی شبہیں متوقع صفائی کے ساتھ حاصل نہیں کر سکا۔ پھر سورج کی روشنی کے باعث بھی اس کی بھیجی تصاویر میں 15 سے 20 فیصد تک دھندلاہٹ شامل ہوتی تھی۔ اس کے باوجود ہبل نے پہلے دو سال کے دوران ایسی معلومات ارسال کیں جن تک پہلے رسائی نہیں تھی ۔ اس نے بڑے میگینک بادل میں پھٹنے والے سپر نوا کے گرد گیس کے ایک دمکتے ہالے کی نشان دہی کی۔ اس کی بھیجی گئی تصاویر میں سے ایک کہکشاں ایم51 کے مرکز میں ایک تاریک علاقہ دریافت کیا گیا جو ایک بلیک ہول کے گرد کے علاقے ہو سکتے ہیں۔ اس دوربین کی خامیاں دور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ہبل خلائی دوربین  زمین کے مدار میں گردش کرنے والی ایک خلائی رصد گاہ و دوربین ہے۔ اسے خلائی جہاز ڈسکوری کے ذریعے اپریل 1990ء میں مدار میں بھیجا گیا تھا۔ اس کا نام امریکی خلائی سائنسدان ایڈون ہبل کے نام پر رکھا گیا ہے۔

امجد احسان

بشکریہ دنیا نیوز

کلاؤڈ برسٹ یا بادل پھٹنا کسے کہتے ہیں؟

محکمہ موسمیات پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق کلاؤڈ برسٹ کو رین گش اور رین گسٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اگر کسی چھوٹے علاقے میں مختصر وقفے میں شدید بارش ہو جائے تو اسے کلاؤڈ برسٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مخصوص علاقے میں ایک گھنٹے میں کم سے کم 200 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جائے۔ کلاؤڈ برسٹ میں غیرمعمولی بجلی اور بادلوں کی گرج بھی پیدا ہوتی ہے۔ دوسری جانب انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کے مطابق کلاؤڈ برسٹ مقامی واقعہ ہوتا ہے، جو مختصر وقفے کے لیے رونما ہوتا ہے اور گرج چمک اور شدید برقی یا بجلی کی سرگرمی کی وجہ بنتا ہے۔ اس میں عموماً بادل کے نیچے کی ہوا اوپر اٹھتی ہے اور پانی کے قطروں کو کچھ دیر گرنے سے روکتی ہے۔ اب جیسے ہی ہوا کا دباؤ کم ہوتا ہے پانی کی بڑی مقدار بادل سے گرتی ہے اور یوں بادلوں کا پانی گویا اس طرح بہتا ہے کہ بالٹی الٹ دی گئی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کلاؤڈ برسٹ کے زیادہ ترواقعات پہاڑی علاقوں میں رونما ہوتے ہیں۔ جب پانی کی بڑی مقدار نیچے گرتی ہے تو سیلابی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے بہاؤ میں آبادی اور فصلوں کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔

سہیل یوسف

بشکریہ ایکسپریس نیوز

سمندری طوفانوں کے نام کس طرح رکھے جاتے ہیں؟

سمندری طوفانوں کے نام رکھنے کے حوالے سے جنوبی ایشیائی ممالک کا ایک پینل ہے جسے پینل اینڈ ٹروپیکل سائیکلون (پی ٹی سی) کہا جاتا ہے۔ اس پینل میں ابتدائی طور پر سات ممالک تھے جن کی تعداد بڑھ کر اب 13 ہو گئی ہے جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمار، تھائی لینڈ، مالدیپ، سری لنکا، عمان، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ سن 2004 سے قبل طوفان کے اس طرح کے ناموں کی کوئی روایت نہیں تھی جس طرح آج ان کے نام رکھے جاتے ہیں۔ ماضی میں سمندری طوفانوں کو ان کے نمبر سے یاد رکھا جاتا تھا۔ سن 1999 میں ایک سائیکلون پاکستان کے شہر بدین اور ٹھٹھہ سے ٹکرایا تھا، تب اس کا نام Zero 2-A تھا جو اس سیزن کا بحیرۂ عرب کا دوسرا طوفان تھا۔

بعد ازاں ‘پی ٹی سی’ میں تمام ممالک کے محکمۂ موسمیات کے درمیان یہ طے پایا کہ طوفانوں کے ایسے نام ہونے چاہئیں جو یاد رکھنے میں آسان ہوں، ادا کرنے میں سہل ہوں۔ پی ٹی سی کے رکن ممالک کے درمیان یہ بھی طے پایا کہ ہر ملک باری باری سمندری طوفان کو ایک ایک نام دے گا۔ اس طرح 2004 میں ایک فہرست بنائی گئی جو 2020 تک رہی اور اس میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے گئے ان تمام کو استعمال کیا گیا۔ پاکستان نے اس فہرست میں جن طوفانوں کے نام تجویز کیے تھے ان میں فانوس، نرگس، لیلیٰ، نیلم، نیلوفر، وردہ، تتلی اور بلبل شامل ہیں۔ سن 2020 میں اس فہرست کا مجوزہ آخری نام ‘ایمفن’ تھا۔

یہ طوفان خلیجِ بنگال میں بنا تھا اور اس کا رخ بھارت کی جانب تھا بعد ازاں پی ٹی سی کے تمام 13 رکن ملکوں نے گزشتہ برس طوفانوں کے ناموں کی ایک نئی فہرست ترتیب دی تھی۔ یاد رہے کہ طوفانوں کے نام رکھنے کے لیے پی ٹی سی میں شامل رکن ملکوں کے انگریزی حروفِ تہجی کی ترتیب سے ان ملکوں کی باری آتی ہے۔ مثلاً 2020 میں بننے والی نئی فہرست کا سب سے پہلا نام بنگلہ دیش کا تجویز کردہ رکھا گیا جو ‘نسارگا’ تھا۔ بعدازاں بھارت، ایران اور مالدیپ کے ناموں کا نمبر آیا۔ اب میانمار کی باری تھی تو حالیہ طوفان کا نام ‘تاؤتے’ اسی کا تجویز کردہ ہے۔  اگر مستقبل میں کوئی طوفان آتا ہے تو عمان کا تجویز کردہ نام ‘یاس’ رکھا جائے گا جس کے بعد پاکستان کے مجوزہ نام ‘گلاب’ کا نمبر آئے گا۔

سنہ 2020 میں ترتیب دی گئی فہرست میں پاکستان کے تجویز کردہ نام
پاکستان نے گزشتہ برس پی ٹی سی کی ترتیب دی گئی فہرست میں طوفانوں کے جو نام تجویز کیے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ گلاب، اثنا، صاحب، افشاں، مناحل، شجانہ، پرواز، زناٹا، صرصر، بادبان، سراب، گلنار اور واثق۔ سن 2020 کی فہرست میں سمندری طوفانوں کے ناموں کے کُل 13 کالم ہیں۔ ہر کالم میں اسی طرح مجوزہ ناموں کو ملکوں کے حروفِ تہجی کی ترتیب سے رکھا گیا ہے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

توانائی کی مساوات والا آئن اسٹائن کا خط بارہ لاکھ ڈالر میں نیلام

آئن اسٹائن کے ہاتھ سے تحریر کردہ ایک نایاب خط 12 لاکھ ڈالر (یعنی 15 کروڑ روپے) میں نیلام ہوا ہے جس میں انہوں نے بطورِخاص انسانی تاریخ بدل دینے والی مشہور مساوات E = mc^2 اپنے ہاتھوں سے تحریر کی ہے۔ بوسٹن کے ایک نیلام گھر آر آر آکشن نے اس خط کو نیلام کیا ہے جو مشہور سائنسداں البرٹ آئن اسٹائن نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں موجود آئن اسٹائن پیپر پروجیکٹ اور یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی کے مطابق اس وقت دنیا میں صرف تین خط ایسے ہیں جن میں آئن اسٹائن کے ہاتھ سے لکھی مشہور مساوات دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ خط ایک خاندان کی ذاتی ملکیت میں تھا جو حال ہی میں منظرِ عام پر آیا ہے ۔ نیلام گھر کا خیال تھا کہ یہ چار لاکھ ڈالر میں نیلام ہو گا لیکن اب یہ اندازے سے تین گنا زائد قیمت پر فروخت ہوا ہے۔

آر آر آکشن کے نائب صدر بوبی لیونگسٹون نے کہا ہے کہ یہ خط تاریخی اور سائنسی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے جس میں دنیا کی مشہور مساوات اس کے خالق کے ہاتھ سے لکھی ہے۔ توانائی برابر ہے کمیت ضرب روشنی کی رفتار کے مربع والی یہ مساوات طبعیات کی گرہیں کھولتی ہے اور ہماری فکر میں وسعت کی وجہ بنی ہے۔ اس ایک مساوات پر ماہرین نے مقالوں اور کتابوں کے ڈھیر لگا دیئے ہیں۔  یہ ایک صفحے کا خط ہے جسے آئن اسٹائن نے پولش امریکی سائنسداں، لڈوک سِلبرسٹائن کو لکھا تھا۔ سِلبرسٹائن آئن اسٹائن کا مشہور ناقد اور اس کے بعض نظریات کو چیلنج کرنے کی شہرت رکھتا ہے۔ پہلے یہ خط لِڈوک کی ملکیت تھا جس کی وفات کے بعد اہلِ خانہ نے اسے فروخت کر دیا تھا۔

بشکریہ ایکسپریس نیوز

کنکارڈ : دنیا کا پہلا سپرسانک طیارہ

برٹش ایئر کرافٹ کارپوریشن اور فرانسیسی طیارہ ساز کمپنی ایرواسپیشل کی مشترکہ کاوشوں سے دنیا کا سب سے تیز رفتار مسافر بردار طیارہ کنکارڈ بنایا گیا۔ یہ کنکارڈ طیارہ پہلی بار 2 مارچ 1969ء کو اڑایا گیا تھا اور اس میں 128 مسافروں کی گنجائش رکھی گئی تھی، یہ برق رفتار طیارہ تیز رفتار ی سے پرواز کی صلاحیت رکھتا تھا جو ایک ہزار 4 سو میل فی گھنٹہ کی رفتار ہے۔ کنکارڈ طیارہ زیادہ سے زیادہ 4 لاکھ 8 ہزار پونڈ وزن کے ساتھ فضا میں بلند ہو سکتا ہے۔ 10 اکتوبر 1969ء کو پہلی بار آزمائشی طور پر کنکارڈ نے آواز کی رفتار کو مات دے کر 1.05 ماہ کی رفتار سے پرواز کیا تھا۔ بعدازاں 4 نومبر1970ء کو آواز کی رفتار سے دگنی ”201 ‘‘ کی رفتار کا ریکارڈ قائم کیا اور 21 جنوری 1976ء کو دنیا کا پہلا سپر سانک طیارہ بن گیا جس میں مسافر بھی سوار تھے۔

اس وقت دنیا کی صرف دو ایئر لائنیں فرانس کی فضائی کمپنی ایئر فرانس اور برطانوی فضائی کمپنی برٹش ایئرویز کنکارڈ طیارے کو استعمال کرتی رہیں۔ بدقسمتی سے دنیا کا یہ تیز ترین مسافر بردار طیارہ جمبو کے مقابلے میں بہت کم یعنی سو مسافروں کے ساتھ پرواز کر سکتا ہے۔ 14 اپریل 1990ء کو کنکارڈ طیارے نے تیز رفتاری کا نیا ریکارڈ اس وقت قائم کیا تھا جب اس نے نیویارک سے لندن کا فاصلہ 2 گھنٹے 55 منٹ اور پندرہ سیکنڈ میں طے کیا تھا۔ نیویارک سے لندن کا فاصلہ 3469 میل ہے۔ ایئرفرانس اور برٹش ایئرویز نے پہلی بار 21 جنوری 1976ء کو بیک وقت کنکارڈ طیارے مسافروں کے لئے استعمال کئے تھے۔ ابتدائی دنوں میں ایئر فرانس کے کنکارڈ پیرس اور ریوڈی جنیرو کے درمیان اور برٹش ایرویز کے کنکارڈ لندن اور بحرین کے درمیان پرواز کرتے تھے۔ لندن نیویارک اور پیرس نیویارک کے درمیان کنکارڈ پروازیں 22 نومبر1977ء کو شروع کی گئیں۔

انیس احمد

بشکریہ دنیا نیوز

الجبرا کا بانی، کمپیوٹر کا باپ الخوارزمی

مسلمان سائنسدانوں نے جہاں علوم کی مختلف شاخوں میں اپنا لوہا منوایا، وہیں ان علوم کے پھیلاؤ میں بھی ان کا اہم کردار رہا۔ ان علوم میں ریاضی سرفہرست ہے۔ الرجل میگزین میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق علم ریاضی کو مسلمانوں نے وہ ترقی عطا کی، جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ ریاضی کے قاعدے بنانے اور اسے ترقی دینے میں مشہور مسلم سائنسدان محمد ابن موسیٰ الخوارزمی کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے، وہ فیثاغورث کے زمانے سے ریاضی کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے ہیں۔ الخوارزمی نے علم الجبرا کی بنیاد رکھی۔ ان کی وضع کردہ گنتی آج تک مشرق و مغرب میں رائج ہے۔ الخوارزمی کی مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ریاضی میں ایسا علم ایجاد کیا جس کا پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ الخوارزمی کو علم الجبرا کا بانی اور کمپیوٹر کا باپ کہا جاتا ہے، آج کمپیوٹر پروگرامنگ میں انہی کے ایجاد کردہ الگورتھم استعمال ہوتے ہیں۔

علم الجبرا کے بانی الخوارزمی کون تھے؟
وہ بغداد میں سنہ 780 سے لے کر 854 تک مقیم رہے۔ الخوارزمی وہ پہلا انسان ہے جس نے حروف کی بجائے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے الجبرا کے بارے میں لکھا۔ ان کا شمار عرب کے ان بڑے سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنہیں ریاضی اور فلکیات پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر تحقیق سنہ 813 سے 833 تک کے درمیان بغداد کے دارالحکمت میں مکمل کی، جس کی بنیاد خلیفہ مامون نے رکھی تھی۔ دارالحکمت میں الخوارزمی نے ان کتابوں سے استفادہ کیا، جو مامون کی لائبریری میں دستیاب تھیں۔ انہوں نے ریاضی، جغرافیہ، فلکیات، تاریخ، یونانی اور ہندوستانی علوم کا مطالعہ کیا اور عربی زبان میں اپنی تمام تصنیف شائع کیں۔ عربی اس زمانے میں سائنس کی زبان تصور کی جاتی تھی۔

علم الجبرا کا معنی
’الجبرا‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو محمد بن موسی الخوارزمی کی کتاب ’الجبر والمقابلہ‘ سے لیا گیا ہے۔ یہ ریاضی کی ایک شاخ ہے جس میں نامعلوم یا معلوم اعداد کی جگہ علامتوں کا استعمال کر کے انہیں حل کیا جاتا ہے۔ الجبرا کے کلیوں کے ذریعے مساوات تلاش کی جاتی ہیں۔

علم ریاضی کے لیے نمایاں کارنامے
الخوارزمی کئی علوم میں مہارت رکھتے تھے لیکن علم ریاضی سے انہیں خاص شغف تھا۔ انہوں نے علم ریاضی میں ایسے قاعدے متعارف کروائے جو ریاضی کے علم میں نیا اضافہ تھے۔ الخوارزمی نے علم حساب اور الجبرا کو الگ کیا اس سے قبل یہ دونوں ایک تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے لفظ ’الجبرا‘ ایجاد کیا، جو اس علم کا نام پڑ گیا، جسے بعد میں مختلف مغربی تہذیبوں نے اپنایا۔ الخوارزمی نے سب سے پہلے الجبرا کو منطقی اور سائنسی زبان میں سمجھایا اور اس کے جدید کلیے وضع کیے۔ انہوں نے عربی اعداد کا استعمال کیا یہاں تک کہ وہ رومن ہندسوں کی جگہ استعمال ہونے لگے، جو اُس وقت یورپ، مشرق وسطی اور سلطنت روم میں رائج تھے۔ محمد بن موسی الخوارزمی نے اعداد میں اعشاریہ متعارف کروایا اور سب سے پہلے صفر کا استعمال کیا۔ علم ریاضی میں یہ ایک انقلاب تھا جوآج تک اپنی افادیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ الخوارزمی کی ریاضی میں سب سے اہم شراکت یہ تھی کہ انہوں نے ہندوستانی نظام اعداد کو متعارف کروایا، وہ سمجھتے تھے کہ اس کے ذریعے اسلامی اور مغربی ریاضی میں انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت سے ہندوستانی اعداد کو اعداد ہندوعرب کہا جاتا ہے۔ یہ بعد میں تمام عالم اسلام میں پھیل گئے اور یورپ نے بھی ان کا استعمال شروع کر دیا۔

الخوارزمی کی مشہور تالیفات
الخوارزمی نے کئی موضوعات پر تصانیف لکھی ہیں۔ انہوں نے جتنے علوم سیکھے سب پر کتابیں لکھیں، ان کی مشہور تصنیفات میں سے کچھ یہ ہیں۔

کتاب الجبر والمقابلہ
الخوارزمی نے یہ کتاب لوگوں کی وراثت اور وصیتوں کے بارے میں ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی۔ اس میں جائیداد کی تقسیم، تجارت اور اس کے احکام وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں زمین کی پیمائش کرنے اور اس سے متعلق تمام معاملات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

كتاب الفن الهندي في الحساب للخوارزمي
اس کتاب میں ان جدید عربی اعداد کا ذکر کیا گیا ہے، جو ہندوستانی ریاضی کے لیے مختص ہوتے تھے۔

كتاب الزيج
اس کتاب نے اس دور میں بڑی کامیابی حاصل کی۔ الخوارزمی نے اس کتاب میں سائن اور کوسائن کے ٹرونومیٹرک افعال کی میزوں پر توجہ مرکوز کی۔

كتاب عن ظهور الأرض
یہ کتاب کلاڈیئس بطلیموس نامی مصنف کی انتہائی اہم اور مشہور جغرافیے کی کتاب کی مکمل کاپی ہے۔ اس کتاب میں دنیا کے بہت سارے ممالک اور شہروں کی جغرافیائی خصوصیات موجود ہیں۔ اس کی صرف ایک کاپی سٹراسبرگ یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ تھی۔

بشکریہ اردو نیوز